Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

حسین حقانی کی کہانی

یا اللہ پاکستان کی خیر کی خیر ہو، حسین حقانی کا وار بڑا کاری ہے اس کا ہدف جناب زرداری یا ملتان والے یوسف رضا گیلانی نہیں ! جناب والا پاکستان ہے۔ حسین حقانی امریکی حکام کی روسی سفیر سے تعلقات پر واشنگٹن میں ہونے والی لے دے اور اکھاڑ پچھاڑ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں، سفارتکاروں کا بنیادی کام ہی مہمان ملک کے حکام سے تعلقات استوار اور میل ملاقات ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان ملاقاتوں کی وجہ سے صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن کو مستعفی ہونا پڑا ۔ غیرملکی سفیروں سے اعلیٰ حکام کے روابط اور میل ملاقات میں کوئی ہرج نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ دشمن اور متحارب ممالک کے سفارتی عملے سے ملاقاتیں بھی معمول کا عمل ہوتی ہیں۔ متحارب سپر پاور روس جس پر امریکہ نے مختلف النوع پابندیاں عائد کر رکھی ہیں کے سفارت کاروں سے اس قسم کی ملاقاتوں میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔

حسین حقانی بلاشبہ شاہکار نثرنگار ہیں، بڑے دھیمے سروں میں لے اٹھاتے ہیں اور آہستہ آہستہ دلائل کی دیوار کھڑی کرتے ہوئے فرماتے ہیں، امریکی رائے عامہ کا مسئلہ یہ نہیں کہ روسی سفارتکار سے امریکی حکام نے کیا تبادلہ خیال کیا۔ ان کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ کیا ان کی ملاقاتیں قانونی تھیں اور ان کا طرزعمل باوقار تھا یا نہیں؟ کیونکہ سفارتکاری کے ذریعے ہی متحارب دشمنوں کو دوست و ہمنوا بنا کر اتحادی بنایا جاتا ہے۔ روس کی موجودہ خارجہ حکمت عملی سے قطع نظر غیرملکی سفارتکاروں سے آزادانہ میل ملاپ نے ہمیشہ امریکی مفادات کو آگے بڑھایا ہے۔ حسین حقانی کی تمہید واقعی نثری حسن کا شاہکار ہے جس کے بعد اصل معاملے کی طرف رْخ کرتے ہوئے انکشاف فرماتے ہیں، میرے دور سفارت میں گرم جوش تعلقات کی وجہ سے پاک فوج اور اس کے خفیہ اداروں کی مدد کے بغیر امریکی اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے اور اس کا صفایا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے حسین حقانی لکھتے ہیں کہ امریکی حکام نے اپنے جاسوسوں کے خصوصی دستے پاکستان میں تعینات کرنے کے لئے مدد و تعاون کی درخواست کی جس سے صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مطلع کر دیا۔ اثبات پر جواب ملنے کے بعد ان جاسوسوں کو ویزے جاری کر دیئے گئے۔ ان امریکی جاسوسوں کی کارروائیوں کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں تھا لیکن انہیں جاسوسوں کی معلومات پر اوباما نے امریکی بحریہ کے خصوصی کمانڈو دستہ بھیج کر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو قتل کروایا۔ اس آپریشن سے پاکستان کو بالکل لاعلم رکھا گیا تھا۔ بدقسمتی سے امریکہ افغانستان میں فتح حاصل نہ کر سکا اسی طرح پاکستان کا اسلامی انتہاپسندوں کے حوالے سے رویہ مستقل تبدیل نہ ہو سکا لیکن میرے دور سفارت میں امریکہ اور پاکستان نے مشترکہ اہداف کے حصول کیلئے ہم آہنگ ہو کر کام کیا اور یہی سفارتکاری کی روح ہوتی ہے۔

حسین حقانی میموگیٹ اور اپنے’’کرشمات ‘‘کا تذکرہ کئے بغیر اپنی مظلومیت کا رونا شروع کرتے ہوئے لکھتے ہیں، جب اقتدار کی ادارہ جاتی لڑائی میں فوج اور اس کے خفیہ اداروں نے سیاسی حکمرانوں پر برتری حاصل کر لی تو مجھے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ڈرائونا کردار، اعلیٰ فوجی افسر جو اس کالم نگار کے ساتھ شریک ملزم رہے ہیں، وہ بتایا کرتے تھے کہ اقتدار کی سیڑھیاں تیزی سے طے کرنے کے لئے حقانی ہر غیرملکی دورے سے واپسی پر ان کے لئے پیش قیمت جوتوں کے تحائف لایا کرتے تھے اور بڑے چاؤ اور لاڈ پیار سے اپنے ہاتھوں سے پہنایا کرتے تھے کہ وہ افسر اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کے اتالیق ہوتے تھے۔
حقانی دعویٰ کرتے ہیں کہ سفارتکاری سے ہٹانے کے لئے جو الزامات فوجی خفیہ اداروں نے لگائے ان میں سب سے اہم الزام یہ تھا کہ میں نے پاک فوج کے علم میں لائے بغیر امریکی جاسوسوں کی بہت بڑی تعداد کو ویزے جاری کئے۔ جن امریکی جاسوسوں نے کامیابی سے اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں کامیابی حاصل کر لی ’’میں نے یہ سب کچھ منتخب عوامی نمائندوں اور جمہوری حکمرانوں کی اجازت سے قانون کے مطابق کیا تھا‘‘۔ حسین حقانی نے اس مرحلے پر یہ انکشافات بلاوجہ نہیں کئے ہیں وہ آصف زرداری اور پیپلزپارٹی کے سیاسی مستقبل سے مایوس ہو چکے ہیں اس لئے موقع کی مناسبت سے حسین حقانی نے اپنے گناہوں کا سارا ملبہ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی پر ڈال کر دوبارہ اہمیت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

سپریم کورٹ کو مطلوب مفرور ملزم حسین حقانی پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کے لئے جاری اس کھیل کا اہم کردار ہے جو نفسیاتی جنگ میں پیپلزپارٹی کی قیادت پر کاری وار کر گیا ہے۔ امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے حسین حقانی بڑے دھڑلے سے ’’ہم‘‘ کا صیغہ استعمال کرتے ہیں جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ موصوف امریکی شہریت اختیار کر چکے ہیں جو کوئی بری چیز نہیں، بری بات نہیں لیکن ادنیٰ دنیاوی مفادات کے لئے ماں مٹی کو بیچ دینا اور اس پر علم الکلام کا مظاہرہ کرتے ہوئے دلیلیں تراشنا اور جمہوریت کے سبق پڑھانا کوئی تر دماغ حسین سے سیکھے، نہیں جناب حسین حقانی کی شاگردی اختیار کرے۔

جناب حسین حقانی دور نوجوانی میں سابق امیر جماعت اسلامی اور شاندار مقرر سید منور حسن کے بستہ بردار ہوتے تھے۔ ان کے جلسوں کو گرمایا کرتے تھے اور صبح منور شام منور۔ روشن تیرا نام منور کے نعرے لگایا کرتے تھے پھر یہ پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کے لئے تخلیق دیئے جانے والے اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) میں جماعت اسلامی کی سیڑھی لگا کر گھسے اور پنجاب کے ابھرتے ہوئے رہنما میاں نواز شریف کے مقرب بن گئے۔ اس کارخانے کو چلانے والے جرنیلوں کے یہ کفش بردار تھے، کون ان کی راہ روک سکتا تھا۔ انگریزی پر دسترس ان کا ہتھیار تھی۔ قبل ازیں جنرل ضیا کے جنازے پر شدت غم سے بے طرح روتے پائے گئے۔ غلام اسحاق خان نواز شریف کشیدگی کے مرحلے پر یہ اندازے کی غلطی کھا گئے اور کولمبو سے سفارتکاری چھوڑ کر مرحوم غلام اسحق خان کے کیمپ میں آن شامل ہوئے، ان کی روانگی کے بعد آصف زرداری کے چرنوں میں جا بیٹھے۔ ذرا نہیں گھبرائے ذرا نہیں شرمائے کہ بی بی بے نظیر اور نصرت بھٹو کی نیم عریاں جعلی تصاویر ہیلی کاپٹر سے لاہور پر گرانے کا مبینہ منصوبہ انہیں کے دماغ کا شاہکار تھا۔

حسین حقانی اپنی واردات ڈال کر غائب ہو چکے ہیں اور شیری رحمان اب لکیر پیٹ رہی ہیں۔ حسین حقانی کو شاطر قرار دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ وہ تو اب وہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ بہت دبائو میں ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ ان کے تمام دعوے اور انکشافات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔ حسین حقانی کے جبری استعفیٰ کے بعد شیری رحمان کو امریکہ میں سفیر بنایا گیا وہ بتا رہی تھیں کہ امریکی جاسوسوں کے سینکڑوں ویزے ہم نے روکے تھے کہ میں نے 7,7 فٹ تڑنگے دیوقامت کمانڈوز کو معصوم انجینئر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ بھی بتایا کہ اسامہ بن لادن کے واقعے کے بعد پارلیمان کا اِن کیمرہ 11 گھنٹے طویل اجلاس ہوا تھا، صدر زرداری نے انہیں امریکی ویزوں کے حوالے سے مکمل اختیارات دیئے تھے ۔ 

امریکی حکام لاتعداد درخواستیں کرتے رہتے تھے لیکن ہم قومی مفاد میں فیصلے کرتے تھے، کسی کی ایک نہیں سنتے تھے۔ حرفِْ آخر یہ کہ کیا اچھا ہوتا ہے کہ حقانی کے الزامات کا جواب آصف زرداری یا یوسف رضا گیلانی خود دیتے ویسے تو سانپ نکل گیا اور ہم لکیر  پیٹے جارہے ہیں اور اس کام میں ہم بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ ڈان لیکس، ایبٹ آباد کمشن رپورٹ سب کھوہ کھاتے میں جا چکیں اور پاناما لیکس سپریم کورٹ کی تجوریاں میں بند پڑی ہے یہ سب قومی مفاد کے تحفظ کے نام پر ہوتا رہا ہے اور جب تک یہ ہوتا رہے گا کچھ نہیں بدلے گا۔ پاکستان کے دشمن کھل کھیلتے رہیں گے.

محمد اسلم خان 
 



This post first appeared on All About Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

حسین حقانی کی کہانی

×

Subscribe to All About Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×