Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

پاکستان میں بجلی بحران : حل کیا ہے؟

یہ ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ بجلی بحران نے عوام کو ناقابل بیان ذہنی اذیت سے دوچار کیا ہے، گذشتہ کئی سالوں سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے معمولات زندگی، ملکی معیشت، تجارت اور برآمدات کو شدید متاثر کیا، بدترین لوڈ شیڈنگ ہوتی رہی، کراچی جو کاروباری سرگرمیوں کا مرکز تھا اور اس سے ملکی معیشت کا پہیہ رواں دواں رہتا تھا، بارہ بارہ گھنٹے بجلی معطل رہنے کے ریکارڈ بھی قائم ہوئے، شہریوں، طالب علموں کی تعلیمی اور تدریسی سرگرمیاں مفلوج رہیں، بزرگ شہری، بیمار اور فلیٹوں میں رہنے والے لوڈشیڈنگ کا حد سے زیادہ نشانہ بنتے تھے۔ ایک خرابی بجلی کی چوری تھی، جسے پیشہ ور بجلی چور ’’کنڈا‘‘ کے نام سے یاد کرتے تھے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بلاشبہ بجلی بحران اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد تھا، پی پی حکومت پر یہ الزام تھا کہ مہنگی بجلی بے نظیر دور میں متعارف ہوئی، پھر نواز شریف حکومت نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے، بجلی کے یونٹ بنائے گئے، وولٹیج میں اضافہ ہوا، ملک میں بجلی بحران کی شدت اور معیشت کے استحکام کے امکانات پر عوام کی برہمی کم ہوئی۔

پھر جرمن ماہرین آئے، کراچی میں کچھ کام کیا، جنریشن سسٹم اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے کارکردگی بہتر کرنے کے دعوے کیے گئے، غرضیکہ بجلی کی تقسیم اور پیداوار، بلنگ سسٹم، کرنٹ لگنے کے واقعات اور ہائی رائز تعمیرات میں بجلی کی مانگ کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوئے، عوام کو یقین دلایا گیا کہ بجلی کا مسئلہ حل ہو جائے گا، اب لوڈ شیڈنگ پر قابو پایا جائے گا، عوام اطمینان رکھیں، پھر واقعی مسلم لیگ (ن) کے دور میں بجلی اور دہشتگردی پر اہم اقدامات ہوئے، مگر بجلی بحران کا اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا۔ یہ ایک تمہیدی منظر نامہ ہے، لیکن دنیا کے جتنے مہذب، ترقی یافتہ اور شدید ترین معاشی مسائل کا شکار ملک ہیں وہاں بجلی کے نظام میں تکنیکی خرابی کے واقعات اول تو تواتر سے ہوتے نہیں اور اگر کوئی فالٹ ہو تو اس کی درستگی کا ایسا شفاف نظام ہے کہ شہری نے ادھر فون اٹھایا ادھر بجلی محکمہ کا عملہ فالٹ دور کرنے پہنچ جاتا، یہ ساٹھ کی دہائی کا قصہ ہے، آج اکیسویں صدی ہے اور بجلی کی جنریشن، ڈسٹریبیوشن کا نظام جدید ترین ہے، ڈیجیٹل ہے۔

دنیا میں بجلی کی رونقیں ہیں، لیکن ملک میں بجلی کی آنکھ مچولی نے کاروبار اور زندگی کے معمولات کی رعنائی اور بازاروں کا حسن غارت کر دیا ہے، بعض علاقوں میں لوڈشیڈنگ اعصاب شکن ہوتی ہے، یہ علاقے کنڈے کے علاقے کہلاتے ہیں، ان میں بجلی کا نظام آج بھی بہتر نہیں ہوا اور یہیں سے بجلی نظام کا عفریت سر اٹھاتا ہے اور کوئی حکمران، صوبائی انتظامیہ اور ادارہ ملک میں بجلی کے شفاف نظام کو یقینی بنانے کے عہد سے عہدہ برآ نہیں ہو سکا۔ پی پی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے سسٹم اور اس اسٹیٹس کو ختم کر کے ایک ایسے بجلی نظام سے منسلک نہیں کیا جو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ملک کے شہریوں کو چوبیس گھنٹے بلا تعطل بجلی مہیا کر سکے۔ کیا کسی ہرکولیس جیسی مافوق الفطرت توانائی کی ضرورت ہے کہ اس کے بغیر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوتی۔ خدا لگتی بات پوچھی جائے تو بجلی کا مسئلہ سسٹم کی خرابی کے ساتھ ساتھ طرز حکمرانی کی کمٹمنٹ اور سیاسی ارادے سے تعلق رکھتا ہے، ایک عوام دوست حکمرانی ہی اس درد کا ادراک رکھ سکتی ہے کہ ملک کے عوام بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے بغیر کس طرح زندگی گزارتے ہیں، توانائی بحران نے برآمدات کا بحران بھی پیدا کیا، ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کا حجم سمٹ گیا، لاکھوں ہنر مند بیروزگار ہیں، کورونا کی آمد کے بعد سماجی دباؤ، بیروزگاری اور جرائم نے معاشرے کی ساخت اور شہریوں کی شناخت تک مٹا دی ہے۔

انسان بے چہرہ ہو گئے ہیں، کراچی کے تاجروں نے حکومت سے شکوہ کیا ہے کہ ان کے لیے اس بات کی تمیز کرنا مشکل ہو گیا کہ ماسک پہنے ہوئے شخص یا خاتون کا تعلق واقعی خریدار سے ہے، کسی ڈکیت گروپ سے تو نہیں، کیونکہ سب منہ چھپائے ہوئے دوکان میں داخل ہوتے ہیں، بجلی کا ایک مسئلہ نہیں بلکہ لوگوں کے پاس بجلی کی شکایات کی فائلیں بنی ہوئی ہیں، بجلی کی معطلی، فراہمی، سے لے کر ہوشربا بلنگ کی، کسی بل کی درستگی کے لیے صارفین کو جو دھکے کھانے پڑتے ہیں اس کا کوئی ازالہ کرنے کا آسان میکنزم ہی نہیں، آخر کنڈے کے ناسور کے خاتمے کا کیا علاج ہے۔ خیبر پختون خوا کے علاقوں سے محکمہ کو کتنی رقم بلنگ کی مد میں ملی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ، خیبر پختونخوا، کے قبائلی، شہری اور دیہی علاقوں میں کئی زونز آزادی سے بجلی چوری میں ملوث ہیں، کوئی بل نہیں دیتا، لیکن ارباب اختیار کریک ڈاؤن نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ، بجلی چوروں کی فہرست میں ’’ کئی پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں‘‘۔ المیہ یہ ہے کہ جو شہری قانون پسند ہیں، ذمے داری سے اپنے بل ادا کرتے ہیں، ان کو بھی بجلی چور سمجھ کر کنڈے کی بجلی کا مجرم سمجھا جاتا ہے۔

وہ گھنٹوں بجلی کے غائب رہنے کی سزا بھگتتے رہتے ہیں، ایسے کئی علاقے ہیں جہاں دو عشروں سے بجلی ہر تین گھنٹے کے لیے جاتی ہے۔ ایسے علاقوں کی کوئی کمی نہیں جہاں بجلی کی ناقص ترسیل مسئلہ بنی ہوئی ہے، مون سون بارشوں کے موسم میں بچے اور ناواقف لوگ کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوتے ہیں، نہ کرنٹ سے ہونے والی اموات کا کوئی فوری ازالہ ممکن ہے اور نہ گنجلک تاروں کے متبادل منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے ایمرجنسی پروگرام موجود ہے، ہر کام افراتفری اور ایڈہاک ازم کے تحت ہوتا ہے۔ جن ریگولیٹری باڈیز کو بجلی نظام کو جدیدیت، شفافیت مہیا کرنی ہے ان کے احتساب اور نگرانی کی کوئی روایات بھی ہونی چاہئیں، کوئی ذمے داری قبول نہیں کی جاتی، علاقے میں اندھیرا ہو جائے تو چوری کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں، طالب علموں، تدریسی اداروں اور مادر علمی کی تقدیس کو بھی ملحوظ نہیں رکھا جاتا، حالانکہ کورونا اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے تعلیم و تدریس کے فکری تسلسل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، عوام سخت ذہنی تناؤ میں ہیں۔

حقیت یہ ہے کہ ذمے دار اہلکار ملک میں بجلی کے نظام کی شفافیت اور اسے فالٹ فری نہیں بنا سکے، کل بھی جب لالٹین، مشعلوں اور تیل سے گھروں، چوراہوں اور سرکاری عمارات پر روشنی کا انتظام ہوتا تھا، انتظامیہ کے لوگ نگرانی پر مامور تھے، پاکستان میں بجلی سمیت جتنی سہولتیں عوام کو میسر ہیں اس کی ارتقائی داستان بہت سبق آموز بھی ہے اور دل چسپ بھی۔ آج ملک کی بارونق مارکیٹیں بھی لوڈ شیڈنگ کی زد میں ہیں، ملک میں معیشت کے مستحکم ہونے کی نوید دی جاتی ہے، بے انتہا ترقی ہوئی ہے، کراچی یا لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے بازار، مکانات، سرکاری دفاتر، روشنی کی ہر سہولت سے آراستہ ہیں لیکن بجلی بحران اور اس کی آنکھ مچولی ختمٕ ہونے کا نام نہیں لیتی، ملک کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے، کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا، اس عروس البلاد میں بھی مسلسل لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، عوام سوال کرتے ہیں کہ دنیا کتنی ترقی کر چکی ہے، لیکن حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ حکومت عوام کو بجلی کا کوئی باوقار نظام نہیں دے سکی۔

حکومت کو قومی اسمبلی میں اس وقت سبکی کا سامنا ہوا جب ملک کے مختلف حصوں خصوصاً صوبہ خیبر پختونخوا میں لوڈشیڈنگ کے معاملے پر اس کے اپنے ہی اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق معاملہ اس وقت زیربحث آیا جب خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کے 4 اراکین نے توجہ دلاؤ نوٹس میں وزیر توانائی حماد اظہر کو مخاطب کیا۔ نوٹس میں خیبر پختونخوا میں ٹرانسفارمرز اور دیگر بجلی کے سامان کی کمی کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ کا تذکرہ کیا گیا جس کے باعث صوبے کے عوام میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ نوٹس مالاکنڈ کے جنید اکبر خان، نوشہرہ سے عمران خٹک، بونیر سے شیر اکبر خان اور باجوڑ سے گل ظفر خان نے پیش کیا۔ جب نوٹس پیش کرنے والوں نے اپنے اپنے حلقوں میں لوڈشیڈنگ کے بارے میں بات کی تو اس دوران پشاور سے تعلق رکھنے والے ایم این اے نور عالم خان نے نہ صرف لوڈشیڈنگ بلکہ قیمتوں میں اضافے کے معاملے پر بھی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا۔ نور عالم خان کی تقریر کے دوران حزب اختلاف کے اراکین قومی اسمبلی ڈیسک بجاتے رہے جس سے وزیر توانائی حماد اظہر ناراض ہو گئے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی نے بجلی کی کمپنیوں کے عہدیداروں کو مفت بجلی فراہم کرنے کی پالیسی پر بھی سوال اٹھایا۔ حماد اظہر نے کہا کہ حکومت، ٹرانسمیشن سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان کو 2023 میں 50 فیصد اضافی بجلی حاصل ہو گی لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے مہنگے معاہدوں کی وجہ سے ملک کو سالانہ 1500 ارب روپے ادا کرنے ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان 30 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے لیکن ٹرانسمیشن سسٹم مشکل سے 24 ہزار میگاواٹ بجلی کی ترسیل کر سکتا ہے۔ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ وفاقی حکومت کراچی کے رہائشیوں کی تکالیف محسوس کرتی ہے اس لیے کے الیکٹرک کو 550 میگاواٹ اضافی بجلی فراہم کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کو 350 میگاواٹ بجلی سپلائی کی جارہی ہے جب کہ کے الیکٹرک حکومت کی اربوں روپے کی مقروض ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے ‘جھوٹے’ کے نعروں کی گونج کے درمیان حماد اظہر نے کہا کہ کراچی میں بجلی کی صورتحال بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔ ارباب اختیار سے عرض ہے کہ ڈنگ ٹپاؤ کا زمانہ گزر گیا، عوام بجلی کا ایک سائنٹیفک سسٹم چاہتے ہیں، بجلی کا تعلق عوام کی روزمرہ زندگی، آسودگی اور سکون سے ہے، معیشت کا انحصار بجلی پر ہے، اس پیداواری اور تقسیم و بلنگ کے نظام کو ایڈہاک ازم سے درست نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، لہذا سنجیدہ، طویل المیعاد اور نتیجہ خیز منصوبہ بندی کے بعد ہی ملک صنعتی، سماجی، تجارتی اور ثقافتی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز




This post first appeared on MY Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

پاکستان میں بجلی بحران : حل کیا ہے؟

×

Subscribe to My Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×