Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

اکائونٹ ہیک کیسے کیا جاتا ہے؟ ہیکرز سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟

ہیک کرنے کا عمل دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ ماضی سے اب تک حساس ترین اداروں اور سرکاری اداروں کی ویب سائٹس تک کو ہیک کیا جاتا رہا ہے۔ ہیڈ آفس کے مین سرور تک رسائی، اہم ترین شخصیات کے ذاتی اکائونٹس سے لے کر ایک عام آدمی تک کے اکائونٹس ، کمپیوٹرز اور موبائلز بھی ہیک ہوتے رہے ہیں۔ دنیا سائبر میں اس ہیکنگ کو سائبر کرائم کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو بڑا اور گھنائونا جرم شمار ہوتا ہے جس کی سزائیں بھی کڑی سے کڑی رکھی گئی ہیں۔ سب سے پہلے جاننا ضروری ہے کہ اکائونٹ ہیک کیسے کیا جاتا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی جاننا بہت ضروری ہے کہ آپ کے اکائونٹس کے ذریعے کوئی آپ کی لوکیشن، گھر کا ایڈریس بھی ٹریس کر سکتا ہے۔ اکائونٹس ہیک کرنے والے اس عمل کو بہتر طریقے سے جانتے ہوں گے، تاہم ہم اپنی معلومات کے مطابق یہاں پر کچھ معلومات فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکائونٹس ہیک کے بہت سے طریقے ہیں۔

عموما ہیکنگ میں پہلے ایک نقلی پیج بنایا جاتا ہے اور پھر اس نقلی پیج کا لنک اس یوزر کو ای میل کر دیا جاتا ہے، جس کا اکائونٹ ہیک کرنا ہوتا ہے۔ اس لنک پر کوئی دلچسپ ، غیر معمولی معلومات ، تصویر یا ویڈیو دی ہوئی ہوتی جو عموماً کسی کو بھی اپنی طرف مائل کر سکتی ہیں، جب یوزر اس نقلی فیس بک پیج کے لنک پر کلک کرتا ہے تو وہ پیج اس سے یوزر نام اور پاسورڈ مانگتا ہے۔ جب یوزر اس پیج میں اپنا نام اور پاس ورڈ لکھ کر لاگ ان کرتا ہے تو اس کے اکائونٹ کی مکمل تفصیل اس شخص کو مل جاتی ہے جس نے وہ لنک بھیجا تھا۔ اکائونٹ کی تفصیل اس جعلی اکائونٹ بنانے والے کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ بہت سے لوگ فیس بک کے ذریعے اپنی کچھ چیزیں لائک کرنے والے کے لیے دوسرے سے کہتے ہیں اور اس طرح لائک کے چکر میں آپ کی معلومات ہی اس کے پاس چلی جاتی ہے۔

دراصل آپ جس صفحے پر لاگ ان ہو رہے ہوتے ہیں وہاں اگر آپ یو آر ایل بار یعنی لنک پر غور کریں تو وہ فیس بک یا جی میل کا ایڈریس نہیں ہو گا بلکہ وہ کوئی ویب سائٹ کا یوآر ایل ہو گا مگر آپ کے سامنے جو پیج آرہا ہو گا وہ کسی فیس بک یا جی میل کا ہو گا۔ دراصل اس میں بالکل ایک جیسے ڈیزائن کا صفحہ استعمال کیا جاتا ہے جس سے لوگ بہت جلد دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان کی لاگ ان ڈیٹیلز چوری ہو جاتی ہیں اورانہیں پتا بھی نہیں چلتا۔ بہت سے افراد آن لائن خریداری کے لیے یا کسی غیر ضروری ویب سائٹ تک رسائی کے لیے وہاں پر موجود ویب سائٹ اوپن کرتے ہیں تو ایک پیج فراہم کر دیا جاتا ہے۔ اس پیج پر ایک اکائونٹ کریڈ کرنے کا کہا جاتا ہے۔ جس کے لیے ای میل اور پاس ورڈ بھی مانگا جاتا اس طرح بھی آپ کا ایک میل اور پاس ورڈ متعلقہ فرد کے پاس چلا جاتا ہے۔

ہیکنگ یا کسی کی لوکیشن معلوم کرنے کا ایک آسان اور بہترین طریقہ یہ بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ مختلف ویب سائٹس کا لنک آپ کو انباکس یا ای میل کیا جاتا ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف آپ سے اس پر کلک کروانا ہوتا ہے۔ آپ کے ایک کلک کے ذریعے انٹرنیٹ کا آئی پی ایڈریس فورا اس ہیکر کے پاس چلا جاتا ہے۔ آئی پی ایڈریس بنیادی طور پر آپ کے انٹرنیٹ کی لوکیشن ہوتا ہے۔ آئی پی کے ذریعے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس وقت آپ کس ایریا میں موجود ہیں؟ اگر یہ کہا جائے کہ فیس بک یا کوئی بھی اکائونٹ ہیک نہیں ہو سکتا تو ایسا نہیں ہے۔ البتہ احتیاطی تدابیر کے ذریعے ممکنہ حد کم سطح کے ہیکرز سے بچا جا سکتا ہے۔ جہاں تک رہی بات مکمل طور سیکیور کرنے کی تو اس کے لیے آپ اپنی اہم معلومات ہرگز ہرگز اپنے اکائونٹس میں نہ رکھیں۔ اگر کوئی شخص آپ کو نقلی پیج استعمال کر کے ای میل یا ان باکس کرتا ہے اور آپ کو لاگ ان ہونے کا کہتا ہے تو آپ سب سے پہلے اس پیج کے لنک (ایڈریس) کاپی کر کے الگ سے برائوزر میں دیکھیں۔

فیس بک میں بھی ابتدائی دنوں میں ایک بڑی خرابی سامنے آئی تھی۔ وہ یہ تھی کہ بغیر پاس ورڈ کے اکائونٹ ہیک کر لیا جاتا تھا۔ ہیکر فیس بک کے کسی بھی اکائونٹ کو صرف یوزر نیم کی مدد سے کھول سکتے ہیں۔ تاہم فیس بک انتظامیہ کو جب اس بات کی شکایت موصول ہوئیں تو فیس بک نے اس غلطی کو درست کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ تاہم یہ نہیں معلوم ہے کہ آیا فیس بک کو اس قدر سیکیور کر دیا گیا ہے یا ابھی تک نہیں کیا جا سکا۔ اس بات سے یوزرز کو بہت احتیاط رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے اکائونٹ میں کوئی ایسی چیز سیو نہیں کریں کہ اگر آپ کی آئی ڈی کو بہت سیکیور رکھنے کے باجود ہیکر کھول لیتا ہے تووہ آپ کی چیزیں رکھ کر بلیک میل نہ کر سکے۔ کوشش کریں کہ 2-3 ماہ بعد اپنا پاس ورڈ اپ ڈیٹ کرتے رہیں۔ پبلک مقامات اور دوسروں کے کمپیوٹرز پر لاگ ان کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیں۔ 

صرف قابل بھروسا جگہوں پر ہی اپنے ذاتی اکاؤنٹس استعمال کریں۔ لاگ ان کرتے ہوئے بعض اوقات پاس ورڈ سیو (محفوظ) ہو جاتا ہے اس بات کا احتیاط ضروری ہے۔ کسی بھی ای میل اکاؤنٹ کے ہیک ہونے میں سیکورٹی کوئسچن (سیکیورٹی سوال) بھی اہم ہوتا ہے۔ اس لیے اپنے سیکورٹی کوئسچن ایسے نہ رکھیں کہ جسے کوئی بھی سوچ کر پہنچ جائے۔ جیسے آپ کا بہترین ٹیچر، دوست وغیرہ۔
اپنے اکائونٹ کو ہیک ہونے سے بچانے کے لیے پرائمری ای میل اور موبائل فون نمبر جو آپ کے اپنے پاس ہیں وہ ایڈ کر کے رکھیں۔ مگر دوسروں کے لیے شو (Show) ہرگز نہیں کریں بلکہ وہاں پر ہیڈن کے آپشن کا استعمال کریں۔ ابھی حال میں ہیک کرنے کا نیا طریقہ کار بھی سامنے آرہا ہے۔ یہ طریقہ ہیکرز کے لیے انتہائی آسان اور کارآمد ثابت ہو رہا ہے۔ ہیکر کسی بھی طریقے سے آپ کے موبائل میں ایک وائرس انسٹال کر لیتا ہے۔

نیویارک سے جاری ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ سینکڑوں ہزاروں مقبول ترین موبائل ایپس آپ کے پرائیویٹ اور حساس ترین ڈیٹا پر نظر رکھتی ہیں اور معلومات چوری بھی کرتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کمپنی Vocative کی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ فیس بک، وائبر اور اینٹی وائرس کے علاوہ درجنوں مقبول ترین گیمز بھی صارفین کی ایسی معلومات طلب کرتی ہیں کہ جن تک ان کی رسائی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ایپس صارفین کی تصاویر، ویڈیوز، میسج، کال کی معلومات، لوکیشن اور یہاں تک کہ مائیکرو فون اور اسپیکر کی آواز بھی ریکارڈ کر سکتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معلومات عام طور پر صارفین کو اشتہارات بھیجنے کی غرض سے اکٹھی کی جاتی ہیں لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ ان کا اور کیا استعمال ہوتا ہے اور یہ معلومات کس کس کے پاس جاسکتی ہیں۔ 

پرائیویٹ معلومات تک غیر مناسب اور ضرورت سے زائد رسانی حاصل کرنے والی ایپس میں اینٹی وائرس ایپس سر فہرست ہیں، اس کے بعد وائبر اور فیس بک کا نمبر آتا ہے۔ اس کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ جب بھی ایپ انسٹال کرنے لگیں وہاں پر موجود ہوتا ہے کہ آپ ایپ ڈائون لوڈ کرنے کے لیے کن کن چیزوں کے لیے آلائو کر رہے ہیں؟ ہیکنگ میں سب بڑی غلطی ہماری اپنی ہوتی ہے۔ ہیکنگ کی وجوہات جاننے کے بعد آپ کو اندازہ ہو رہا ہو گا کہ اس تمام ہیکنگ میں آپ کی اپنی غلطی ہوتی ہے۔ جب تک آپ کو ایک چیز کا معلوم ہی نہیں آپ اس لنک پر ہرگز نہیں جائیں۔ یہاں پر ایک افسوس کا امر یہ بھی ہے کہ بہت سی خواتین فیس بک کے آزادنہ استعمال کی وجہ سے کچھ بھنوروں کے چنگل میں پھنستی جارہی ہیں۔ گزشتہ دنوں کچھ ایسے کیس سامنے آئے کہ جنہیں سن کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ کچھ لوگ فیس بک پر لڑکیوں سے دوستیاں کرتے ہیں پھر ان کی تصاویر لے کر انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ اگر آج اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیں تو آپ کو ہر دس میں کوئی نہ کوئی ہراساں ہوتی لڑکی مل جائے گی، جس کی بنیادی وجہ وہ لڑکی خود ہوتی ہے۔ یہ بھی ہیکنگ کی ایک قسم ہے۔ کوئی آپ کو اپنے جال میں پھنسا کر آپ سے آپ کے اکائونٹ تک لے کر اس میں جو چاہیے کرتا ہے۔ آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ایک بات یاد رکھیں کہ سوشل میڈیا پر کوئی آپ کا اپنا نہیں ہے۔ یہ سب عارضی ہیں۔ آج ہیں تو کل نہیں ہوں گے۔ آپ کے اپنے وہ ہیں جو آپ کے گھر میں ہیں۔ جو آپ کے گلی محلے اور خاندان میں ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا پر موجود افراد اچھے ہو سکتے ہیں مگر کب تک یہ آپ نہیں جانتے۔ ایک بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ سوشل میڈیا پر ایک شخص آپ کا ہے تو وہ اسی وقت اور بے شمار افراد کا ہو سکتا ہے۔ ایسے بہت سے گروہ ہیں جو پاکستان میں باقاعدہ ہیکنگ کرتے ہیں۔ میرا ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے دفتر جانا ہوا۔ وہاں مجھ سے قبل 4 گھنٹوں میں 5 ایسے کیس آچکے تھے جن میں فیس بک پر لڑکیوں کو ہراساں کرنے جیسے واقعات شامل تھے۔ گزشتہ دنوں فیس بک اکائونٹس ہیک کر کے جنسی ہراساں کرنے والا 3 رکنی گروہ کو راولپنڈی سے گرفتار بھی کیا گیا۔ جس نے 80 سے زائد اکائونٹس ہیک کیے تھے۔

ملزم نے باقاعدہ طور پر فیس بک پیج ہیکنگ سیکھی ہوئی تھی۔ سرگودھا سے ایک گروہ پکڑا گیا جس کے قبضے سے 18 انٹر نیٹ سرور‘ ہارڈ ڈسک‘ 6 کمپیوٹرز‘ جعلی پاسپورٹس‘ شناختی کارڈ اور کئی موبائل فون برآمد کیے۔ یہ گروہ فیس بک پر لڑکیوں سے دوستی کر کے یا اکائونٹ ہیک کر کے تصاویر حاصل کرتا اور ان کے رشتے داروں کو دکھا نے کی دھمکیاں دے کر لڑکیوں اور ان کے خاندان والوں کو بلیک میل کرتا تھا۔ اسلام آباد سائبر کرائم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر طاہر تنویر نے بتایا کہ 11 ماہ میں 2000 سے زائد صرف فیس بک پرلڑکیوں کو ہراساں کرنے کی شکایات موصول ہوئیں۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کے غلط استعمال پر سنگین مقدمات اور سزا ئوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ سائبر کرائم بل 2014ء کے تحت ویب سائٹ ہیکنگ کو سائبر ٹیررازم قرار دیا گیا ہے جس کی سزا 14 سال قید اور 5 کروڑ روپے تک جرمانہ تجویز کیا گیا۔ 

انٹرنیٹ یا موبائل پر کسی خاتون کی کردار کشی کرنے والے شخص کو 1 سال قید ہو سکے گی۔ بل میں انٹرنیٹ پربذریعہ فیس بک، ٹوئیٹر یا کسی اور سوشل نیٹ ورک پر کسی دوسرے کی شناخت اپنانے پر 6 ماہ تک کی قید تجویز کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سائبر برانچ کرائم بل 2015 ء کے تحت سوشل میڈیا پر غلط پروپیگنڈہ کرنے والوں کو سالوں قید اور لاکھوں جرمانہ ہو سکتا ہے، اسی طرح سرکاری ویپ سائٹس ہیک کرنے کی کوشش میں7 سال قید اور 50 لاکھ جرمانہ ہو سکتا ہے اور کسی شخص کی شہرت یا پرائیویسی کو نقصان پہنچانے کی صورت میں 3 سال قید اور کئی لاکھ جرمانہ ہو سکتا ہے۔ فیس بک کے بارے میں ایک بات جان لینا ضروری ہے۔ فیس بک میں اسلام دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ فیس بک کو غیر جانب دار نہیں کہا جا سکتا۔ فیس بک نے فلسطینی صحافیوں اور میڈیا سینٹرز کے اکائونٹس بلاک کردیے۔ اس طرح کشمیر میں آزادی کی تحریکوں سمیت بیشمار کشمیریوں میں آواز بلند کرنے والوں کے اکائونٹس کو بلاک کیا گیا۔ یہ فیس بک ہی تھی کہ جس نے نبی اکرم ﷺ کی شان اقدس میں نعوذ باللہ گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا اعلان کیا تھا۔

عارف رمضان جتوئی

بشکریہ روزنامہ جسارت



This post first appeared on MY Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

اکائونٹ ہیک کیسے کیا جاتا ہے؟ ہیکرز سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟

×

Subscribe to My Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×