Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

کلدیپ نیر : پیسے اور شہرت کے بجائے ضمیر کی آواز سننے والے صحافی

معروف صحافی اور مصنف کلدیپ نیر ممتاز صحافی، ایڈیٹر اور مصنف تو تھے ہی لیکن انھیں پریس کی آزادی، انسانی حقوق کے تحفظ اور ہند پاک دوستی کے لیے ان کی انتھک جدوجہد کے لیے بھی یاد رکھا جائے گا۔ وہ 95 برس کے تھے۔ کلدیپ نیر کا جنم سیالکوٹ میں ہوا تھا اور انھوں نے لاہور سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔ لیکن اس کے بعد ملک تقسیم ہو گیا اور وہ انڈیا آ گئے۔ سن 2012 میں انھوں نے اپنی خود نوشت شائع کی تھی جس میں انھوں نے تقسیم کے زخموں کے بارے میں تفصیل سے لکھا تھا۔ یہ زخم بظاہر ان کی شخصیت کا حصہ رہے اور شاید اسی وجہ سے وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن اور دوستی کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں سے ہمیشہ وابستہ رہے۔

وہ ایک مدت کے لیے پارلیمان کے ایوان بالا کے رکن رہے اور 1990 میں، جب وی پی سنگھ ملک کے وزیر اعظم تھے، انہیں برطانیہ میں انڈیا کا ہائی کمشنر مقرر کیا گیا۔ کلدیپ نیر نے اپنا لمبا صحافتی سفر ایک اردو اخبار ’انجام‘ سے شروع کیا تھا اور اس کے بعد ملک کے کئی سرکردہ اخباروں اور خبررساں ایجنسی یو این آئی سے وابستہ رہے۔ ان کا کالم "بٹوین دی لائنز" بہت مقبول تھا۔
لیکن شاید انھیں سب سے زیادہ پریس کی آزادی کے لیے ان کی جدوجہد کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جب 1975 میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور پریس کو سینسرشپ کے انتہائی سخت دور سے گزرنا پڑا تو اس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں کلدیپ نیر بھی سب سے آگے تھے جس کی وجہ سے انھیں جیل جانا پڑا۔

نیوز ویب سائٹ ’دی کوئنٹ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ ’اندرا گاندھی اور میں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ ایک دن انھوں نے اپنے بال بہت چھوٹے کرا دیے اور مجھ سے پوچھا کہ وہ کیسی لگ رہی ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ پہلے ہی بہت خوبصورت تھیں، اب اور زیادہ خوبصورت لگ رہی ہیں۔‘ مشہور مورخ رام چندر گوہا نے ایک تعزیتی پیغام میں لکھا ہے کہ ’کلدیپ نیر اس نسل کے صحافی تھے جو پیسے اور شہرت کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنے ضمیر کی آواز سننے کو زیادہ ترجیح دیتے تھے۔ مذہبی ہم آہنگی کے لیے ان کی کوششوں، ان کی ایمانداری اور ایمرجنسی کے دوران ان کی جرات کو یاد رکھا جائے گا۔‘

کلدیپ نیر نے اپنےایک کالم میں ایمرجنسی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’اندرا گاندھی نے جمہوریت کی روشنی بجھا کر ہمیں پولیس راج کے اندھیرے میں دھکیل دیا تھا۔۔۔` لیکن ساتھ ہی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ’سافٹ ہندوتوا‘ کے اثر کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ اب پریس کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو کوئی غیر آئینی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ میڈیا خود اتنا حکومت نواز ہو گیا ہے کہ اسے کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ وہ ہر سال انڈیا اور پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر شہری اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دوسرے لوگوں کے ساتھ واہگہ اٹاری بارڈر جاتے جہاں امن کے پیغام کے طور پر موم بتیاں روشن کی جاتیں اور ایک ’کینڈل لائٹ‘ ریلی نکالی جاتی۔ اب اس ریلی میں شامل شمعوں میں سے ایک کی لو ہمیشہ کے لیے بجھ گئی ہے۔

سہیل حلیم
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
 



This post first appeared on MY Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

کلدیپ نیر : پیسے اور شہرت کے بجائے ضمیر کی آواز سننے والے صحافی

×

Subscribe to My Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×