Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

چلو اک کام کرتے ہیں (گزشتہ سے پیوستہ)


پچھلے آرٹیکل میں بات معاشرے میں موجود لوٹ مار کے اک نہ ختم ہونے والے گردشی سفر پر نامکمل رہی تھی۔ تو سلسلہ وہیں سے جوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ حرص و ھوس پر مبنی، تضادات اور منافقت کے تانے بانے سے بنا معاشرہ بھلا کیونکر ترقی اور کامیابی کی ارتقائی منازل طے کر پائے گا۔ ایسے استحصالی اور عدل سے عاری ماحول میں صرف نفرتیں پنپتی ہیں اور ظلم بچے جنتا ہے۔

ہوس نے ٹکڑے ٹکرے کر دیا ہے نوع انساں کو
محبت کی زبان ہو جا اخوت کا بیاں ہو جا

سماج افراد کے کردار کا عکس ہوتا ہے۔ تو ظالم سماج سے کیسا گلہ۔۔۔۔عزت و غیرت کے نام پر ظلم، عقیدہ و عقیدت کے نام پر ظلم، جنس و نسل کے نام پر ظلم، لسانیت کے نام پر ظلم۔۔۔۔یہ سب مظالم ہم ہی اک دوسرے کے خلاف ڈھاتے ہیں۔ عدل وانصاف کا دوہرا   معیار، دھوکہ دھی اور جھوٹ پر سجتے بازار، ملاوٹ اور ناپ تول میں ہیرا پھیری سے چمکتے کاروبار۔۔۔۔ ہم ہی کرتے ہیں۔ کسی دشمن کو اپنا وقت ہمیں تباہ کرنے میں ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کام کو سرانجام دینے کو ہم خود کافی ہیں۔
ان سب خرابیوں میں ہچکیاں لیتا ملک اگر زندہ ہے تو اللہ کی شان ہے ورنہ خاکم بدہن۔۔۔۔۔

مگر ہر تصویر کی طرح ہمارے معاشرےکا اک دوسرا رخ بھی ہے۔ وہ رخ ۔۔۔۔۔ماہ رخ ہے۔ جیسا کہ پہلے آرٹیکل میں عرض کیا تھا کہ کوئی بھی معاشرہ پرفیکٹ نہیں ہوتا۔

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا 
کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا
عبدلستار ایدھی اسی معاشرے میں جنم لیتا ہے۔ ارفعہ کریم اسی معاشرے کی بیٹی تھی۔ مسرت مصباح ڈاکڑ عبدل قدیر اسی دھرتی کے سپوت ہیں۔ فیض احمد فیض اور حبیب جالب بھی یہیں کے باشندے تھے۔ مفت دسترخوان،سرائے اور ٹرسٹ ہسپتال بھی یہاں کے لوگوں کی کاوشیں ہیں۔ جزبوں سے لبریز اس قوم کی مائیں قرض اتارو ملک سنوارو کے نعرے پر اپنے زیور لٹا دیتی ہیں۔ زلزلہ اور سیلاب ذدگان کی امداد کا وقت آیا تو بھی اس قوم نے اخوت و محبت کے نئے باب رقم کئے۔ زخمیوں اور مریضوں کو خون کی ضرورت پڑے تو بھی اس قوم نے دیکھایا کہ ہم ابھی زندہ ہیں۔ قصہ مختصر۔۔۔۔اس طرح کی انگنت شخصیات اور انمٹ واقعات ہیں جو سر فخر سے بلند کردیتے ہیں۔ 

اک نتیجہ جو اس تقابلی تحریر سے اخذ کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں اچھے کاموں اور کارناموں کی تشہیر نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثلا اک ٹیکسی ڈرائیور نے اک سواری کا نوٹوں بھرا پرس واپس اس کے مالک کو پہنچایا مگر کسی کو اس  ڈرائیور کا نام بھی یاد نہ ہو گا۔ حالانکہ اسے ہیرو قرار دے  کر نہ صرف اس فرد واحد کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی تھی۔ بلکہ معاشرے میں موجود افراد کو بھی اک عملی درس دیا جا سکتا تھا۔ ماڈل ٹاون سانحے کا سب کو پتہ ہے مگر اس واقعی میں ہلاک شدہ افراد میں سے کسی کا نام 90 فیصد سے زائد عوام کو پتہ بھی نہیں۔ کیونکہ میڈیا کمرشلازم کی دوڑ میں صرف وہ دکھاتا ہے جس سے سنسنی پھیلے۔ کرپشن، قتل وغارت، اغوا، ظلم وذیادتی، ڈکیتی کی خبریں۔۔۔ جوئے اور فحاشی کے اڈوں پر چھاپے اور اسی طرح کے تمام معاملات پر ہر چینل نہ صرف خبر پہنچانے کا کام کرتے ہیں بلکہ تحقیق کے واسطے خصوصی ٹیمیں تشکیل دیتے ہیں۔ منظر کشی کےلئے مخصوص پروگرام بھی نشر کرتے ہیں۔ اور تو اور اپنے چینل کی خودساختہ عدالتوں سے سزائیں بھی تجویز کرتے ہیں۔ ان کا شبیر ہو یا اقرار۔۔۔۔یہ صرف ان مکھیوں کی طرح ہیں جو گند کو سونگھ کر تلاش کرتے ہیں اور پھر اس پر بھنبھناتے پھرتے ہیں۔ تو چلیں اک کام کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا جو تشہیر تقریبا مفت پلیٹ فارم ہے۔ اسے اپنے فارغ اوقات میں سلیفیاں اپ لوڈ کرنے، نیلی آنکھوں کے مالک چائے والے کو تلاش کرنے، محبوب اور محبوبہ کی بےوفائی میں دکھی شعر پوسٹ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہوتی اچھائوں کی تشہیر جیسے مقصد کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ شاید تبدیلی آجائے۔




This post first appeared on GumNaam, please read the originial post: here

Share the post

چلو اک کام کرتے ہیں (گزشتہ سے پیوستہ)

×

Subscribe to Gumnaam

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×