Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

چلو اک کام کرتے ہیں

میں آج قلم کو چپو کی مانند تھامے،  سوچ کے سمندر میں،  کاغذ کی کشتی پر سوار تھا۔ قبل اس کے کہ سوچوں میں تلاطم خیز موجوں کی بدولت ڈوبتا۔ طوعا و کرھا اچانک اک سوال کے ساحل پر لنگر اندازہوا۔ سوال یہ تھا کہ ہم پاکستانی کیوں ہر اچھے کام میں پیچھے پائے جاتے ہیں۔ اور برائی کے ہر کارنامے کا سہرہ ہمارے ہی سر کیوں بندھتا ہے۔ کیا ہم واقعی اتنے گھٹیا، بے شرم، نالائق، کام چور، بد دیانت، کاہل اور نکمے ہیں۔ یا معاملہ کچھ اور ہے۔ اس سوال کا جواب پہلے بھی کئی مفکرین تلاشتے رہے ہیں۔ کچھ تحقیق مجھ نا چیز نے بھی کی ہے۔ معاملہ چونکہ حساس نوعیت کا ہے لہذا قدم پھونک پھونک کر رکھنا میری مجبوری ہی نہیں ضرورت بھی ہے۔ جان کی حفاظت انسانی خواہش بھی ہے اور اک مذہبی فریضہ بھی۔
میری ذاتی رائے یہ ہے۔ کہ کوئی بھی قوم، کوئی بھی معاشرہ، کوئی بھی ملک۔۔۔۔پرفیکٹ نہیں ہوتا۔  بہتری کا سفر اک بتدریج آگے بڑھنے کا عمل ہے۔ چونکہ یہ اک نہ ختم ہونے والا صدیوں پر محیط سفر ہے۔ شاید یہی سوچ کر ہم اس کا آغاز ہی نہیں کر رہے۔ محکوم اقوام اس سفر میں منزل سے مخالف سمت چلتی ہیں۔ ہمارا پہلا مسئلہ یہ ہی ہے۔ 70 سال پہلے ملی ٹوٹی پھوٹی آذادی کے بعد ہم ابھی تک اس قطب نما کی تلاش میں ہیں جو ہماری درست سمت کا تعین کر سکے۔ قطب نما اب آسمان سے تو نازل ہونے سے رہا۔ لیڈر امپورٹ کر کے بھی دیکھے مگر حالات ابتر ہی ہوئے۔ جب ہر شخص کی سوچ یہ ہو کہ مسیحا کوئی اور ہو۔ تو پھر ملک کی حالت اس سرکاری ہسپتال کی سی ہو گی جس میں صرف مریض ہوتے ہیں مسیحا کوئی نہیں ہو تا۔ جناب قطب نما ہم لوگوں میں سے ہی برآمد ہو گا۔ مگر اس معاملے میں پریشان کن بات یہ ہے کہ جن کو اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی چاہیئے وہ روزی روٹی کے معاملات میں یوں الجھے ہیں کہ
دنیا نے تیری یاد سے بےگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
اگر بات یہیں تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا کیونکہ اک بھوکے سے کسی نے پوچھا کہ دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں تو اس نے جواب دیا۔ چار روٹیاں۔۔۔۔ مگر چار روٹیوں کے بعد اگلے سو سال کی روٹیوں کی خواہش، پوتوں اور پڑ پوتوں کے لئے بھی روٹیاں اکھٹی کرنے کی تمنا تو ایسے ہے کہ
ساماں سو برس کا اور پل کی خبر نہیں
یہ سوچ نہ صرف مادیت پرستی کا ثبوت ہے بلکہ اللہ کی ذات باری تعالی پر تو کل نہ ہونے کی ایمانی کمزوری کی علامت بھی ہے۔ مادیت پرستی کا زہر ہماری رگوں میں سرطان بن کر سرایت کر چکا۔ مذہب کو عبادات تک محدود کر کے، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا جنازہ پڑھا جا چکا۔ روپیہ پیسہ جب زندگیوں میں خدا کا درجہ پا لے وہاں کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ جو حکمران ہیں انہیں عوام کے درد کا انداذہ ہی نہیں۔ مگر ان سے گلہ شکوہ کیسا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہم اپنے ملک کے لیے خود کچھ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے مگر امریکہ، یورپ اور دوسرے ممالک سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ہماری بہتری سوچیں۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو کیا ضرورت کے وہ پاکستان کی ترقی کے متعلق فکرمند ہو۔ گلی میں موجود ہمسائے کی بھوک اور تکلیف سے نا آشنا محلے دار، امریکی خارجہ پالیسی کے متعلق گفتگو کرتے اور جلوسوں میں مرگ بر امریکہ کے نعرے لگاتے ہیں۔ اب نریندر مودی انڈیا کی ترقی کا سوچے یا پھر پاکستان کی۔ ہماری خواہش تو یہ ہے کہ پاکستانیوں کے علاوہ باقی تمام اقوام پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور بہتری کے لئے دن دوگنی اور رات چوگنی کوششیں کریں۔ وہ ہمارے مسائل کو سمجھیں اور ان کے حل تلاشیں۔
یہ تو یوں ہی ہے جیسے شیخ صاحب اپنے دادا کی بلیک اینڈ وائٹ اکلوتی فوٹو لے فوٹو گرافر کے پاس گئے اور کہا کہ اس فوٹو کو بڑا کروا کے فریم کروانا ہے۔ میں نے مشورہ دیا کہ یار شیخ تصویر میں تمہارے دادا نے جو واہیات قسم کی ٹوپی اوڑھ رکھی ہے وہ بھی فوٹو شاپ کی مدد سے اتروا دو تو مرحوم کم از کم فوٹو میں تو اچھے لگیں گے۔ شیخ صاحب کو آئیڈیا پسند آیا۔ تو یہ فرمائش انہوں نے فوٹو گرافر کی خدمت میں پیش کی۔ اس پر وہ بولا کہ جناب دادا حضور کی ٹوپی تو اتار دوں گا مگر یہ تو بتا دیں کہ آپ کے دادا بالوں کی مانگ الٹے یاتھ کو نکالتے تھے یا سیدھے ہاتھ کو۔ اس پر شیخ نے تنک کر کہا۔ عجب گھامٹر قسم کے فوٹو گرافر ہو۔ بھئی جب ٹوپی اتارو گے تو خود ہی معلوم ہو جائیے گا۔
شیخ صاحب کے دادا کی ٹوپی سے یاد آیا کہ ہم ہر وقت اک دوسرے کو ٹوپی پہنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ من حیث القوم ہمارا فلسفہ حیات اک واہیات سوچ پر مبنی ہے جس کے مطابق ایک کا فائدہ دوسرے کے نقصان پر منحصر ہے۔ ہر شخص اپنے منافع کے لئے دوسرے کو ٹوپی پہنانے میں لگا ہے۔ اس مشن میں طبقاتی، معیشی، معاشرتی اور مذہبی تفرقہ بلکل ختم ہے۔ 

تری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

مالدار سے لے کر متوسط اور متوسط سے لے کر غریب طبقہ ۔۔۔۔کاروباری ہو یا نوکری پیشہ، سیاست دان ہو یا سائنسدان، سنی ہو یا شیعہ ۔۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ اپنے اک ٹکے کے فائدے کیلئے کسی کو لاکھوں کا نقصان پہنچا دینا ۔۔۔عام سی روش ہے۔
میں دفتر میں کسی کو لوٹ کر آتا ہوں تو مجھے سبزی والا، گوالا، قصائی وغیرہ وغیرہ لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ سبزی والے کو گوالا اور گوالے کو قصائی لوٹتا ہے۔ غرض یہ کہ لوٹ مار کا اک نہ ختم ہونے والا مقابلہ ہے جس میں سب اول آنے کیلئے کوشاں ہیں۔    
(جاری ہے)




This post first appeared on GumNaam, please read the originial post: here

Share the post

چلو اک کام کرتے ہیں

×

Subscribe to Gumnaam

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×