Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

ماچس

تاریخ گواہ ھے کہ جس قوم نے وقت کی قدر کی۔ قدرت نے وقت کی امامت اس کے ھی سپرد کی۔ جس قوم نے وقت کو صرف کھلونے کے طرح استعمال کیا۔ قدرت نے اس کا حال ڈگڈگی کی دھپ دھپ پہ ناچنے والے بندر کا سا کر دیا جو تماشا کرتے ھوئے یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ ایسا کیوں کر رھا ھے۔ ذکر چونکہ بندر کا آیا ھے تو آئیے آپ کو براعظم عیاشیا کے اک جنگل نما ملک کی داستان سناتا ھوں۔ جو جنگل تو نہیں تھا مگر راج وھاں جنگل کے قانون کا ھی تھا۔  محققین اس امر کا تعین کرنے میں تاحال قاصر ھیں کہ وھاں کے باسیوں نے اس قانون کو اب تک کیوں اپنا رکھا ھے مگر مجھ ناچیز کی رائے یہ ھے کہ دیگر ممالک میں بسنے والے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کرکے "حیوان " سے "معاشرتی حیوان" کا درجہ پا چکے مگر اس ملک کے باسی ابھی تک اپ گریڈیشن کا یہ مرحلہ طے نہیں کر سکے لہذا ابھی تک ذہنی طور پر حیوانیت کے درجہ پر فائز ھیں۔ اب جنگل میں حکمرانی شیر کے علاوہ اور کون کر سکتا ھے مگر چونکہ شیر کی درندہ صفت فطرت بقایا ممالک میں کی نظر میں ناپسندیدہ ھے تو فرنٹ اینڈ پر یہ ذمہ داری اس شرط پر بندروں کے حوالے ھے کہ وہ دوران حکومت کوئی ایسی بلکہ ایسی ویسی حرکت نہیں کریں گے جس سے شیروں کے قبیلے کے کسی بھی درندے کو کوئی جائز یا ناجائز پریشانی اٹھانی پڑے۔ اس کے علاوہ بندر تمام اخلاقی اور غیر اخلاقی حرکات کرنے کے لئےآذاد ھیں۔ اب اگر اس بندر کے ھاتھ ماچس آجائے تو اندازہ کیجئے وہ کیا ظلم ڈھائے گا۔ آگ سینکے کےلئے اپنے ھی آشیانے کو خاکستر کر بیٹھے گا۔ یہی کچھ  عرصہ دراز سے اس جنگل نما ملک کے ساتھ ھو رھا ھے۔ ملکی سیاست اور سیاسی قائدین کا حال یہ ھے۔ جس کے ھاتھ اقتدار کی ماچس آجاتی ھے وہ آگ سے کھیلنا شروع کر دیتا ھے۔ اور اس آگ کی تباہ کاریوں سے انجان، سوچے سمجھے بنا ھی اسکی سلگتی چنگاریوں کی چمک سے محظوظ ھوتا رھتاھے۔ اور اس کے مخالفین بجائے آگ بجھانے کے اور اسے سمجھانے کے صرف اس کوشش میں ھیں کہ کسی طرح یہ ماچس ان کے ھاتھ لگ جائے تاکہ وہ بھی اس کھیل سے لطف اندوز ھو سکیں۔ اب اک بندر اکیلا تو ماچس چھیننے سے رھا۔ اس کام کو سرانجام دینے کے لئے اسے مددگار بھی چاھیئں۔ تو مددگار (جو کہ بعد میں اپنی پے در پے کی ھوئی بیوقوفوں سے انہیں بندروں کے پیروکار بھی بن جاتے ھیں) اکٹھے کرنے کیلئے مختلف تراکیب استعمال کی جاتی ھیں۔ مثلا گدھوں کو کہا جاتا ھے کہ وہ اتنی مشقت والا کام کرتے ھیں۔ معیشت کا سارا بوجھ ڈھوتے ھیں۔ مگر انہیں ان کا جائز مقام نہیں دیا جاتا۔ بلکہ حقیقا فقط گدھا ھی سمجھا جاتا۔ معاشرہ ھر نکمے کو گدھے کے لقب سے نوازتا ھے۔ تو جائز مقام کے حصول کےلئے انہیں پہلے بندر کے خلاف دوسرے بندر کو سپورٹ کرنا چاھئیے۔ گھوڑوں سے کہا جاتا ھے کہ وہ نسلا سب سے اعلی اور وفادار ھیں جنگی تاریخ گھوڑوں کی وفاداری کی مثالوں سے اٹی پڑی ھے  مگر وفاداری کا یہ تمغہ حسن کارکردگی برسراقتدار بندر نے کتوں کے گلے ڈال دیا ھے۔ اب کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ھے۔ کہ
آواز سگاں کم نہ کنند رزق گدارا۔
کتوں سےآپ کے اس حق کی بازیابی کےلئے ھماری پارٹی ھی واحد سہارا ھے۔
دوسری طرف اک اور بندر کتوں کو اک چوک میں اکٹھا کئے انہیں ورغلا رھا ھوتا ھے۔ کہ اس قدر حقارت صرف کتوں نے نصیب میں کیوں۔ پطرس کے مضمون کے حوالے دے کر انہیں ان کا اصل مقام یاد کروایا جاتا ھے۔ پالتو ھونے کا وصف، جو کہ ان طرہ امتیاز ھے، کی اھمیت کو اجاگر کیا جاتا ھے۔ چوکیداری جیسی عظیم خدمت کو کسی کھاتے نہ لکھنا صاحب اقتدار بندر کی ناعاقبت اندیشی، کوتاہ فہمی اور اقرباء پروری گردانا جاتا ھے۔ ھاتھی کو یاد دلایا جاتا ھے کہ اس کی زبان کو چنگھاڑ کہا جاتا ھے یہ نہ صرف اس کی زبان کی توھین ھے بلکہ اس کی عزت نفس پر حملہ بھی ھے۔ اسے اٹھ کھڑا ھونا چاھیئے۔ الو کو یہ سندیسہ دیا جاتا ھے کہ تمھارا نام بطور گالی استعمال ھوتا ھے۔ حالانکہ تم یورپ میں عقلمندی کا نشان ھو۔ جبکہ یہاں ھر چغد کو الو کا پٹھا کہہ کر مخاطب کیا جاتا ھے۔ اگر اپنے قبیلے کی حقیقی پہچان بنانا چاھتے ھو تو ھمارے پرچم تلے اپنا گھونسلہ بناو۔ اونٹ کو یوں چارا ڈالا جاتا ھے کہ زرافے کو خوامخواہ اس پر فوقیت دی جاتی ھے۔ گو کہ زرافہ کے قد اونٹ سے نکلتا ھوا ھے اور دکھنے میں بھی خوبصورت ھے مگر صحرا کا جہاز تو اونٹ ھی ھے۔ مگر تحقیرا " اسے اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی" کا طعنہ دیا جاتا ھے۔ اس کی نسل سےتعصب کا عالم یہ ھے اس شعر کو ہی بطور مثال لےلیجئے

"دشت تو دشت صحرا بھی نہ چھوڑے ھم نے۔۔۔
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ھم نے۔۔۔۔۔۔۔"

شاعر نے گھوڑے کا ذکر تو کیا مگر صحرا کے نام کے ساتھ اونٹ کا تذکرہ کرنا گوارا نہ کیا۔ تو اونٹ برادری اس ناانصافی کو کب تک برداشت کرے۔ تو انہیں گھوڑا مخالف تحریک میں شمولیت کی دعوت دی جاتی ھے۔
غرض یہ کہ چڑیا مینا سور ریچھ کتا بلی کی تقسیم کرکے بندر اپنے مددگار تلاشتے ھیں۔ سب جانور اپنے نام نہاد حقوق اور استعماری بالادستی کے خلاف اک دوسرے کے خلاف کف اڑاتی گفتگو شروع کرتے ھیں۔ دست وگریباں ھوتے ھیں۔ دشنامطراز ھوتے ھیں۔ سرپٹھتے ھیں۔ اور جانور مرتے ھیں۔ بندروں کی دوکانداری بڑھتی ھے۔ قسمت چمکتی ھے۔ بندروں کے مشیر لگھڑ بگھڑ فنکارانہ صلاحتوں کے ساتھ ان لاشوں پر نوحہ خواں ھوتے ھیں۔ پھر دانت نکوستے ان دماغ سے عاری مردہ ضمیر لاشوں کو نوچتے اور اپنا پیٹ بھرتے ھیں۔
اس سارے تماشے میں شامل کوئی جانور یہ نہیں جانتا کہ وہ سب جس دوڑ میں شامل ھیں اس میں اول صرف اک بندر نے آنا ھے۔ جو صرف ماچس اپنے ھاتھ میں لینے کو بےقرار ھے۔



This post first appeared on GumNaam, please read the originial post: here

Share the post

ماچس

×

Subscribe to Gumnaam

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×