نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے مشتعل ہجوم کی جانب سے قانون کو ہاتھ میں لینے اور بناء ثبوت و تحقیق کسی بھی شخص کو ہلاک کردینے کے عمل کو ’ وحشت ناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہجوم کا تشدد گائے کے تحفظ کے نام پر ہو یا بچوں کے اغوا کی افواہ پر کیا گیا ہو، یہ ایک وحشیانہ جرم ہے جس کے خلاف پارلیمنٹ سخت سے سخت قانون سازی کرے۔
Related Articles
بھارتی میڈیا کے مطابق چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مشتعل ہجوم کی جانب سے کسی بھی شخص کو مجرم قرار دے کر سزا دینے کے عمل کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ مشتعل ہجوم کے تشدد کو غم و غصے کی حالت میں انتہائی قدم اُٹھانے جیسا معمولی جرم قرار دے کر اسے معمول کا واقعہ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی گجرات میں ہندو انتہا پسندوں کے حملے میں 2 مسلمان شہید
سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کو قصور وار افراد کو سزائیں دینے کے لیے علیحدہ قانون بنانے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس عمل میں خاموش تماشائی نہ بنے، بلکہ اسے سخت سزاؤں کے ذریعے کچلنا ہوگا، چنانچہ سپریم کورٹ ملک کی پارلیمنٹ سے سفارش کرتی ہے کہ ہجوم کے تشدد کے قصوروار افراد کو سزائیں دینے کے لیے ایک علیحدہ قانون بنائے۔
عدالتِ عظمیٰ نے مزید کہا کہ پُر ہجوم تشدد کے واقعات کو برداشت نہیں کیا جا سکتا، جمہوریت میں ہجوم کے تشدد جیسی لاقانونیت کی کوئی جگہ نہیں، چنانچہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو مستقبل میں مشتعل ہجوم کے تشدد کی روک تھام کے لیے احتیاطی، تعزیری اور اصلاحی اقدامات کرنے ہوں گے اور اس حوالے سے اپنے اقدامات کی رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں سوشل میڈیا پر بچوں کے اغوا کی افواہوں پر 14 افراد قتل
واضح رہے کہ بھارت میں گائے ذبح کرنے کا الزام لگا کر انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کا قتل اور املاک کو نذر آتش کرنا عام سی بات ہے۔ حال ہی میں واٹس ایپ پر بچوں کے اغوا سے متعلق افواہوں کو درست مان کر مشتعل ہجوم نے درجن سے زائد مشتبہ اغواکاروں کو مار مار کر ہلاک کردیا تھا۔
The post بھارتی سپریم کورٹ کا ’مشتعل ہجوم کے تشدد‘ کے خلاف قانون سازی کا حکم appeared first on ماہنامہ میرے محسن.
This post first appeared on Islamic Society Magazine | Islamic Magazine Around The Family, please read the originial post: here