Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

نو سال گزر گئے، کسی بڑے کو سزا نہ ہوئی

بدنام زمانہ این آر او کو سپریم کورٹ نے 2009 میں کالعدم قرار دیا۔ پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کے درمیان سودے بازی کے تحت ختم کئے جانے والے مقدمات دوبارہ کھول دیئے گئے۔ اعلیٰ عدلیہ کی نگرانی میں متعارف طریقہ کار متعارف کرایا گیا تاکہ کرپٹ عناصر کے لئے سزا کو یقینی بنایا جا سکے اور لوٹی گئی رقوم بلا تاخیر قومی خزانے میں واپس لائی جا سکے۔ 9 سال گزر گئے، یہ 2018 ہے ، لیکن این آر او کیسز میں ملوث کسی ایک بھی نامی گرامی شخص کو سزا دی گئی اور نہ جیل میں ڈالا گیا۔ اس کے متضاد انتہائی اہم این آر و مقدمات میں طاقتور ملزمان کو بری کر دیا گیا۔ جواز یہ دیا گیا کہ احتساب عدالتوں کے رسوا رکن فیصلوں میں دستاویزی ثبوت موجود نہیں تھے۔

نیب اپنے رازداری کے دبیز پردے میں این آر او مقدمات کی تفصیلات دینے پر آمادہ نہیں ہے جس میں ان مقدمات کا انجام، برّیت اور سزائیں وغیرہ شامل ہیں۔ چیئرمین نیب اور نہ ہی اس کے ترجمان استفسار پر کوئی جواب دیتے ہیں اور نہ ہی موبائل فون کالز سنتے ہیں۔ جبکہ نیب ذرائع کا اصرار ہے کہ این آر او کیسز کو اب دیکھنے کا مطلب نیب کے خلاف بڑے اسکینڈلز کو کھولنے کی راہ ہموار کرنا ہو گا۔ نیب میں ذرائع کے مطابق 9 سال بعد این آر او مقدمات دوبارہ کھولے جانے کے باوجود 50 این آر او مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرالتوا ہیں جن میں سے 12 احتساب عدالتوں اور 34 سپریم اور ہائی کورٹس میں زیرسماعت ہیں۔ 

بتایا جاتا ہے کہ این آر او کالعدم قرار دئے جانے کے بعد مجموعی طورپر عدالتی مقدمات، انکوائریز اور انوسٹی گیشنز کو دوبارہ کھولا گیا ہے جن میں 6 کیسز سپریم کورٹ، 30 ہائی کورٹس اور 99 احتساب عدالتوں سے متعلق ہیں۔ ان کے علاوہ 5 انکوائریز اور 15 انوسٹی گیشنز بھی ہیں۔ ان 155 میں سے 105 کیسز کے انجام کا علم نہیں ہے۔ اس وقت صرف 50 مقدمات زیرالتوا ہیں۔ آخری تین بڑے مقدمات میں سابق صدر کو ’’لاپتہ دستاویزی ثبوت‘‘کی بنیاد پر بری کیا گیا۔ ایس جی ایس، کوٹیکنا اور اے آر وائی گولڈ کیس میں اہم شخصیت کے ساتھ شریک ملزمان کو بھی بری کیا گیا۔ انہیں پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں دو احتساب عدالتوں کے انتہائی مشکوک فیصلوں کے تحت بری کیا گیا۔ 

سوئس مقدمات بھی نہیں کھل سکے کیونکہ پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت نے ہچکچاہٹ سے کام لیا اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط لکھنے سے انکار کی پاداش میں سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا۔ نیب کی جانب سے اس بات کی کوئی وضاحت دستیاب نہیں کہ 9؍ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود مقدمات اپنے انجام کو کیوں نہیں پہنچے۔ ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی جو حساس نوعیت کے اہم مقدمات میں ثبوت اور شہادتیں گم کرنے میں ملوث تھے اور وہ جن کا رسوا کن مقدمات کے فیصلوں میں کردار رہا یا وہ جو دوستانہ استغاثہ اور این آر او مقدمات میں تاخیر کے ذمہ دار رہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے این آر او کیس میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں مانیٹرنگ سیلز بنانے کا حکم دیا تھا۔ تاکہ کیسز میں پیش رفت پر نظر رکھی جا سکے لیکن اس کے باوجود این آر او ملزمان کےفائدے میں سنگین کوتاہیاں کی گئیں۔ این آر او فیصلے میں کہا گیا ’’سپریم کورٹ میں چیف جسٹس یا ان کے مقرر کردہ سپریم کورٹ کے جج پر مشتمل مانیٹر این آر او مقدمات میں کارروائیوں پرنظر رکھے (تفصیلی وجوہ میں وضاحت دی گئی ہے) اسی طرح تمام صوبوں کی ہائی کورٹس مانیٹرنگ سیلز بنائے جائیں۔ ان مقدمات پر نظر رکھی جائے جن میں ملزمان کو این آر او 2007 کے تحت بری کیا گیا۔ 

اسی این آر او کیس میں سپریم کورٹ نے سیکرٹری قانون کو بھی ہدایت کی کہ وہ مقدمات کو سرعت کے ساتھ نمٹانے کے لئے احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافے کے لئے اقدامات کریں۔ تاہم عدالت عظمیٰ کی ان ہدایات کے باوجود این آر او کرپشن کیسز میں تمام متعلقہ ذمہ داران کی طرف سے تساہل کے ساتھ کام لیا گیا۔ پیپلزپارٹی حکومت کے دور میں نیب نے حکومت کو اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث 248؍ سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کی فہرست پیش کی لیکن جنہیں این آر او کے ذریعہ نیب نے چھوڑ دیا۔ اس فہرست میں سرفہرست پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت تھی جبکہ ان کے سیاسی و بیورو کریٹ متعدد قریبی معاونین بھی سامنے آئے۔ فہرست جس میں ہر نام کےساتھ ختم این آر او کے تحت مقدمات کا مختصر تعارف دیا گیا اس میں اس وقت حاضر و سابق وزرا، وفاقی اور صوبائی سیکریٹریز، سابق چیف سیکریٹریز موجودہ اور سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور دیگر شامل ہیں۔

انصار عباسی
 



This post first appeared on All About Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

نو سال گزر گئے، کسی بڑے کو سزا نہ ہوئی

×

Subscribe to All About Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×