Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

غزہ کا المیہ، انسانی زندگی بے شمار مسائل سے دوچار ہے

غزہ میں زندگی

غزہ کی آبادی انیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ اکتالیس کلومیٹر لمبی اور دس کلومیٹر چوڑی اس پٹی کی سرحدیں بحیرہ روم، اسرائیل اور مصر سے ملتی ہیں۔ اس علاقے پر تاریخی طور پر مصر کا قبضہ رہا ہے، جو کہ ابھی تک غزہ کی شمالی سرحد کو کنٹرول کرتا ہے۔ 1967 میں ہونے والی مشرقِ وسطی کی جنگ میں غزہ پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا لیکن 2005 میں اس نے اپنے فوجیوں کو اور سات ہزار اسرائیلی آباد کاروں کو واپس بلایا۔ اب یہ فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام ہے جبکہ 2007 اور 2014 کے درمیان اس پر حماس کی حکومت تھی۔ انھوں نے 2006 میں ہونے والے فلسطینی انتخابات میں فتح حاصل کی تھی تاہم کچھ عرصے بعد حریف جماعت فتع کے ساتھ ہونے والا امن معاہدہ ٹوٹ گیا۔ جب حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھالا تو سب سے پہلے اس نے علاقے کی ناکہ بندی کر دی۔ انھوں نے لوگوں اور اشیائے خرد و نوش کے آنے جانے پر بھی بہت حد تک پابندی لگا دی۔ دوسری طرف مصر نے غزہ کی شمالی سرحد کو بلاک کر دیا۔

معیشیت
غزہ 1990 کے مقابلے میں اب بہت غریب ہے۔ 1994 میں غزہ کی فی کس ماہانہ آمدنی 2659 ڈالر تھی جبکہ 2018 میں یہ 1826 ڈالر ہو گئی۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2017 میں غزہ کی پٹی میں بے روزگاری کی شرح چوالیس فیصد تھی جو کہ غرب ِ اردن سے دو گنا اور دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس میں سب زیادہ بے روزگار ہونے والے نوجوان ہیں، جن میں یہ شرح 60 فیصد تک ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ریلیف ایجنسی کا کہنا ہے کہ اسی فیصد عوام کسی نہ کسی قسم کی معاشی امداد پر انحصار کرتی ہے۔

تعلیم
غزہ میں سکولوں کا نظام دباؤ کا شکار ہے۔ فلسطین کے لیے اقوامِ متحدہ کی خصوصی امدادی ایجینسی یو این آر ڈبلیو اے کے مطابق چورانوے فیصد سکول 'ڈبل شفٹ' میں کام کرتے ہیں۔ یعنی کہ سکول دو بار الگ الگ بچوں کے گروہوں کو پڑھاتا ہے۔ پہلا سکول صبح میں جبکہ دوسرا دوپہر میں لگتا ہے۔ یو این آر ڈبلیو اے غزہ میں 250 سکول چلاتا ہے۔ اس سے علاقے میں شرح خواندگی ستانوے فیصد تک ہو گئی ہے۔ تاہم اقوامِ متحدہ کی امداد کے بغیر چلنے والے سکولوں پر منفی اثر پڑا ہے۔ 2014 میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ میں 547 سکول، نرسریاں اور کالج تباہ ہو گئے، ان میں سے زیادہ تر عمارتوں کی مرمت یا تعمیرِ نو ابھی تک نہیں ہو پائی۔ اسی وجہ سے اب غزہ کے سکولوں میں ایک کلاس میں اوسطًا چالیس بچے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ میں 2015 میں طالب علموں کی تعداد چھ لاکھ تیس ہزار سے بڑھ کر 2030 تک بارہ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ جس کا مطلب ہے کہ یہاں 900 مزید سکول اور تئیس ہزار مزید اساتزہ کی ضرورت پڑے گی۔

آبادی
غزہ کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں آبادی کی شرح فی مربع کلومیٹر دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں اوسطً مربع کلومیٹر میں 5479 لوگ آباد ہیں۔ دو ہزار بیس تک یہ تعداد 6179 ہو جائے گی۔ غزہ کی آبادی اس دہائی کے اختتام تک 22 لاکھ اور 2030 تک 31 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ 2014 میں اسرائیل نے غزہ کے ساتھ اپنی سرحد کے ملحقہ علاقوں کو 'بفر زون' یعنی حفاظتی علاقہ قرار دیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہاں کسی کا بھی رہنا یا کھیتی باڑی کرنا ممنوع تھا۔ اسرائیل کے اس عمل کی وجہ سے مقامی لوگوں کے لیے رہنے اور کام کرنے کے لیے زمین کم پڑ گئی۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی آبادی میں اضافے اور 2014 کی جنگ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے علاقے میں ایک لاکھ بیس ہزار گھروں کی ضرورت ہے۔ ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس جنگ کے ختم ہونے کے بعد اب تک لگ بھگ 29 ہزار لوگ بے گھر ہیں۔ غزہ کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں کی آبادی کا چالیس فیصد حصہ پندرہ سال سے کم عمر ہے۔

صحت
سرحدی پابندیوں کی وجہ سے صحت عامہ کی سہولتوں تک لوگوں کی رسائی بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ رفاہ کی سرحدی چوکی کے بند کیے جانے کے بعد مصر جانےوالے مریضوں کی تعداد میں کمی آ چکی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ 2014 سے پہلے اوسطاً ہر ماہ چار ہزار افراد صرف علاج کی غرض سے مصر جاتے تھے۔ اسرائیل کے راستے جانے والوں کی تعداد میں بھی حالیہ برسوں میں کمی آ چکی ہے۔ اس کے علاوہ سرحدی پابندیوں کی وجہ سے ادویات، گردوں کے علاج میں استعمال ہونے والی مشینوں اور دل کے مانیٹرز سمیت تمام طبی آلات کی ترسیل بھی رکی ہوئی ہے۔ 

تعلیم کی طرح اقوام متحدہ صحت کے شعبے میں بھی مدد فراہم کر رہی ہے اور اس وقت یہاں بائیس طبی مراکز کو چلا رہی ہے۔ لیکن بہت سارے کلینک اور ہسپتال اسرائیل کے ساتھ تنازعات میں تباہ ہو چکے ہیں۔ سنہ 2000 سے اب تک مقامی آبادی میں دگنا اضافہ ہوا ہے جبکہ اس عرصے میں بنیادی صحت کے مراکز کی تعاد 56 سے کم ہو کر 49 ہو چکی ہے۔ حالیہ عرصے میں جنریٹروں کو چلانے کے لیے استعمال کیے جانے والے ایندھن کی کمی کی وجہ سے بھی صحت کی سہولتیوں متاثر ہوئی ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ بجلی کی کمی کی وجہ سے وہ تین ہسپتالوں اور دس طبی مراکز میں ضروری سہولیات معطل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

بجلی
غزہ میں بجلی کا نہ ہونا یا چلے جانا روز کا معمول ہے۔ مقامی لوگوں کو اوسطًا صرف چھ گھنٹے بجلی ملتی ہے۔غزہ کی پٹی کو زیادہ تر بجلی اسرائیل اور غزہ کا واحد پاور پلانٹ مہیا کرتا ہے، اس میں ان کی کچھ مدد مصر بھی کر دیتا ہے۔ غزہ پاور پلانٹ اور لوگوں کے پاس گھروں میں موجود جنریٹرز کا انحصار ڈیزل کی دستیابی پر ہے جو کہ نہ صرف بہت مہنگا ہے بلکہ باآسانی میسر بھی نہیں۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ پاس ہی ایک گیس فیلڈ ہے جسے اگر تیار کیا جائے تو یہ علاقے کی بجلی کی تمام ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی اضافی بجلی کو ترقیاتی کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ غزہ پاور پلانٹ صرف قدرتی گیس پر چل سکتا ہے، تاہم ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ اگر اسے دوسری اقسام کی طرح گیس پر چلانے کے لیے تیار کیا جائے تو اس سے لاکھوں ڈالر کی بچت ہو گی اور علاقے میں بجلی کی ضرورت کو بھی پورا کیا جا سکے گا۔

پانی اور صفائی کا نظام
غزہ میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پانی ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی وجہ سے علاقے کے زیر زمین پانی جمع کرنے کے ذخائر خالی پڑِے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آبادی کے لحاظ سے یہ ذخائر بہت چھوٹے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر یہ بھرے ہوئے بھی ہوں تب بھی یہ غزہ کی آبادی کی پانی کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے۔ غزہ میں سیوریج کا نظام بھی مسائل کا شکار ہے۔ ویسے تو تقریباً اسی فیصد گھروں میں سرکاری سیوریج نظام موجود ہے تاہم گند کی نکاسی کے یہ پلانٹ ضرورت سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔ ان میں روزانہ جانے والا نوے لاکھ لیٹر کوڑا پوری طرح سے صاف نہیں کیا جاتا اور اسے بحیرہ روم میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ شہر میں موجود پچانوے فیصد زمین سے نکلنے والا پانی آلودہ ہے اور یہ خطرہ بھی ہے کہ کوڑا اور فضلہ سڑکوں پر آسکتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 



This post first appeared on MY Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

غزہ کا المیہ، انسانی زندگی بے شمار مسائل سے دوچار ہے

×

Subscribe to My Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×